ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
Monday, September 12, 2011
Tot Batot key Murghay
ٹوٹ بٹوٹ کے دو مُرغے تھے
دونوں تھے ہُشیار
اِک مُرغے کا نام تھا گیٹو
اِک کا نام گِٹار
اِک مُرغے کی دُم تھی کالی
اِک مُرغے کی لال
اِک مُرغے کی چونچ نرالی
اِک مُرغے کی چال
اِک پہنے پتلُون اور نیکر
اِک پہنے شلوار
اِک پہنے انگریزی ٹوپی
اِک پہنے دستار
اِک کھاتا تھا کیک اور بِسکٹ
اِک کھاتا تھا نان
اِک چباتا لونگ سپاری
ایک چباتا پان
دونوں اِک دن شہر کو نِکلے
لے کر آنے چار
پہلے سبزی منڈی پہنچے
پھر لنڈے بازار
اِک ہوٹل میں انڈے کھائے
اِک ہوٹل میں پائے
اِک ہوٹل میں سوڈا واٹر
اِک ہوٹل میں چائے
پیٹ میں جُوں ہی روٹی اُتری
مُرغے ہوش میں آئے
دونوں اُچھلے، ناچے، کُودے
دونوں جوش میں آئے
اِک بولا میں باز بہادُر
تُو ہے نِرا بٹیر
اِک بولا میں لگڑ بگھیلا
اِک بولا میں شیر
دونوں میں پھر ہُوئی لڑائی
ٹھی ٹھی ٹُھوں ٹُھوں ٹھاہ
دونوں نے کی ہاتھا پائی
ہی ہی ہُوں ہُوں ہاہ
اِک مُرغے نے سِیخ اُٹھائی
اِک مُرغے نے ڈانگ
اِک کے دونوں پنجے ٹُوٹے
اِک کی ٹُوٹی ٹانگ
تھانے دار نے ہنٹر مارا
چِیخے چُوں چُوں چُوں
ٹوٹ بٹوٹ نے گلے لگایا
بولے کُکڑوں کُوں
Tot Batot
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
باپ تھا اس کا میر سلوٹ
پیتا تھا وہ سوڈا واٹر
کھاتا تھا بادام اخروٹ
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
ہر اک اس کی چیز ادھوری
کبھی نہ کرتا بات وہ پوری
ہنڈیا کو کہتا تھا ہنڈی
لوٹے کو کہتا تھا لوٹ
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
امی بولی بیٹا آؤ
شہر سے جاکر لڈو لاؤ
سنتے ہی وہ لے کر نکلا
جیب میں ایک روپے کا نوٹ
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
اتنا اس کا جی للچایا
رستے میں ہی کھاتا آیا
کھاتے کھاتے آئی ہچکی
دانت میں اسکے لگ گئی چوٹ
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
بھائ اسے اٹھانے آیا
ابا گلے لگانے آیا
امی اس کی روتی آئی
ہائے میرا ٹوٹ بٹوٹ
ہائے میرا ٹوٹ بٹوٹ
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
Tot Batot Key Mehman
ٹوٹ بٹوٹ کے گھر میں آئے دو چوہے مہمان
اِک چوہا تھا بھولا بھالا ، اِک چوہا شیطان
ٹوٹ بٹوٹ کے گھر میں آئے دو چوہے مہمان
ٹوٹ بٹوٹ نے ہاتھ ملایا ، جھُک کر کیا سلام
پھر بولا “یہ گھر ہے تمہارا، سمجھو مجھے غلام
جو کچھ چاہو منہ سے مانگو ، حاضر ہے یہ جان“
ٹوٹ بٹوٹ کے گھر میں آئے دو چوہے مہمان
ٹوٹ بٹوٹ کی باتیں سن کر پہلے وہ گھبرائے
کچھ کچھ اُن کا جی للچایا، کچھ کچھ وہ شرمائے
کیا مانگیں اور کیا نہ مانگیں، دِل میں تھے حیران
ٹوٹ بٹوٹ کے گھر میں آئے دو چوہے مہمان
دونوں تھے دو دن کے بھوکے، مرتے کیا نہ کرتے
دونوں نے آخر منہ کھولا ، بولے ڈرتے ڈرتے
ہم کھائیں گے پہلے چٹنی، پھر کھائیں گے پان
ٹوٹ بٹوٹ کے گھر میں آئے دو چوہے مہمان
چٹنی میں تھا مِرچ مسالا ، دینے لگے دہائی
پان میں چُونا تیز لگا تھا ، فوراً ہچکی آئی
سی سی سی سی، سُو سُو سُو سُو، کھو کھو کھو کھو کھان
ٹوٹ بٹوٹ کے گھر میں آئے دو چوہے مہمان
چوہوں کی حالت نہ پوچھو ، ڈر کر بھاگے چوہے
پیچھے پیچھے ٹوٹ بٹوٹ تھا ، آگے آگے چوہے
اب کیسی مہمانی یارو ، اب کیسا مہمان
ٹوٹ بٹوٹ کے گھر میں آئے دو چوہے مہمان
Thursday, May 12, 2011
Chhad de goray sada pichha
چھڈ دے گورے ساڈا پچھا، ہور وی ملک بہتیرے نیں
چھڈ دے گورے ساڈا پچھا، ساڈے ہور بکھیڑے نیں
اسی اسامے کتھوں لبئے، سانوں بجلی لبدی نئیں
پانیں، آٹا، گیس تے روٹی، ساڈی دال تے گلدی نئیں
گل سن گورے دوروں بہ کہ، گللاں کرنیاں سوکھاں نیں
پر جد سر تہ پیندی اے تہ فیر نبھانیاں اوکھیاں نیں
بس کر گورے بڑا توں بولیا، ہن تے واری ساڈی اے
چپ کر، بس کر، رہ جا، ٹھپ جا - ساڈی چین نال یاری اے
Chhad de goray sada pichha - hor vi mulk bahteray nein
Chhad de goray sada pichha - saaday hor bakheray neinAsi osamay kithon labiaay - sanun bijli labhdi nai
Pani, bijli, gas te roti - saadi daal te galdi nai
Gal suun goray duron beh key gallan karnian soukhian nein
per jid siir tey peindi ai tey feir nibhanian auokhian nein
Bus kar goray, bara tun bolia hun tey vari saadi ai
chup kar, bus kar, ruk ja, thap ja, saadi cheen nal yarri ai
Saturday, February 26, 2011
Tuesday, January 18, 2011
Shikwa - Allama Iqbal
"امتیں اور بھی ہیں، ان میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں مست معے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کے تیرے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر"
عجز والے بھی ہیں مست معے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کے تیرے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر"
Subscribe to:
Posts (Atom)